مقدمہ
تمام تعریف اس رب کے لیے ہے جس نے ہمارے لیے محمد بن عبد اللہ کو رسول اور نبی بنا کر مبعوث کیا،جاتے جاتے آپ نے ہمیں ایسی روشن راہ کی رہنمائی کی،جس کی رات بھی دن کی مانند ہے،اور گمراہ شخص ہی جس سے بھٹکتاہے،محمد نے اپنے اقوال و افعال اور اخلاق و اطوار کی روشنی میں اسلام کے منہج کو عملی طور پر ہمارے لیے واضح کیا۔گھراورمسجد میں کی جانے والی عبادات اور دوست و احباب،قریبی رشتہ دار اور دشمنوں کے ساتھ برتے جانے والے اخلاق و کردار اور معاملات کے نمونے پیش کیے۔
اللہ رب العالمین نے آپ کے ذریعہ اس دین معتدل کی نصرت فرمائی ،نتیجتا اس دین متین کی روشن کرنوں نے دنیا کے گوشے گوشے کو منور کیا،اللہ کے اس دین میں عربی وعجمی گروہ در گروہ داخل ہوئے،بلکہ آپ کی زندگی میں ہی دور دراز علاقوں سےلوگ سفر کرکے آپ کے پاس تشریف لائے،آپ سے روبرو ہوئے اور آپ پر ایمان لائے۔
اس امت کے علماء کرام نے آپ کی سیرت مطہرہ کےتمام پہلوؤں کو پوری دقت نظری کے ساتھ کتابی شکل دینے کی کوشش کی ہے ،اسی وجہ سے ہمارے سامنے آپ کی پوری زندگی سیرت کی کتابوں میں اسی شکل و ہیئت میں موجود ہے،جو آپ کی سیرت کی حقیقی شکل تھی، مختلف علمی مراحل میں آپ کی سیرت کے موضوع پر محفلیں اور علمی مسابقے منعقد ہوئے۔آپ کی سیرت کے صفحات میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو ایک انسان کو دنیا و آخرت میں درپیش ہیں۔آپ کی سیرت میں درس عبرت، وعظ ونصیحت اور بہت ساری ایسی مفیدباتیں ہیں جن سےدوسری بڑی بڑی کتابیں خالی ہیں ،آپ کی سیرت ہر نسل کو ایسی روشن ہدایت عطا کرتی ہے،جو اس کی زندگی کی راہ کے ساتھ ساتھ ،علمی،دعوتی،تربیتی ، خاندانی اور سماجی راہوں کو پر نور کردیتی ہے۔
سیرت کی کتاب کا غور وفکر کے ساتھ مطالعہ کرنے سے اس میں چھپے فوائد سامنے آتے ہیں اور مسلسل مطالعہ کرنے کےلامتناہی فائدے بھی ختم نہیں ہوتے، آپ دیکھ جائیں سیرت نبوی کی کڑیاں مختلف زندگی کے مراحل میں پائی جاتی ہیں، تاکہ حق اور راہ مستقیم کے متلاشی اس سے مستفید ہوں،اسی بنیاد پر تو حوصلے مضبوط ہوتے ہیں،فطرت کی حفاظت ہوتی ہے،اخلاق بلند ہوتے ہیں،ذکر کی کثرت ہوتی ہے،ذہن کشادہ ہوتاہے،خوش مزاجی آتی ہے،غلط مفہوم کی اصلاح ہوتی ہے،مردے دل کو زندگی میسر ہوتی ہے،معلومات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے، اورادب کے گوشوں میں خوبصورتی آتی ہے،جب علماء کرام نے سیرت رسول کو اپنی غذا بنایا تو اللہ رب العالمین نے اس سے ان کے دلوں اور عقلوں کو منور کردیا،اور ان کی فکر کو صحیح سمت دیا،جب وہ آپ کی سیرت اور علم کے وارث بنے تو اللہ نے انہیں اپنے مخلوق کی محبت عطا کیا،اسی محبت کی بنیاد پر لوگ علماء کے پاس تشریف لاکر ان کے علم سے مستفید ہوتے اور ان کی فہم سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
جس مسلمان نے بھی سیرت مصطفی کے مطالعہ سے اپنا رشتہ استوار کیا، وہ خیر و برکت کی دولت سے مالامال ہو گيا، کیوں کہ سیرت کے مطالعہ سے دل کارِ خیر میں منہمک ہوجاتا ہے ، جب کہ عقل بحرِ علم و عرفاں میں غوطہ زن، جس کے نتیجے میں اخلاق وبرتاؤ میں حسن و جمال اور اعتقادات و نظریات میں وسطیت و اعتدال کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں، غرضیکہ انہیں فضلِ الہی کا حظِ وافر نصیب ہو جاتا ہے۔
چوں کہ آپ کی سیرت طیبہ میں اتنے فوائد ہیں، کہ عُلما و بُلغا نہ تو ان کا شمار کر سکتے ہیں، نہ ان کی تہہ تک پہنچ سکتے اور نہ ہی محققین ان کی تحدید کر سکتے ہیں، چنانچہ میں نے بھی خود کو اس بحرِ بے کنار کے حوالے کر دیا تاکہ اس کی تہہ میں ڈوب کر بتوفیقِ الہی دروس و فوائد اور مواعظ و عِبر کے بعض سیپوں اور موتیوں کو نکال لاؤں کہ اگر کسی کو باری تعالی کی توفیق حاصل ہو تو وہ اس کتاب سے خاطر خواہ مستفید ہو سکے۔
نبیِ مصطفی کی سیرت پاک کے مطالعہ کے پیچھے میرا مقصد، خواہش اور امید یہ ہے کہ اللہ سبحانہ مجھے ثواب سے نوازے اور اپنی زندگی میں آپ کے نقشِ قدم پے چلنے کی توفیق بخشے، نیز میرا حشر بھی ان کے ساتھ کرے جنہیں اللہ تعالی کا انعام و اکرام حاصل ہے، جیسے کہ انبیا، صدیقین اور شُہدا!
اے اللہ! تو مجھے اس مقام و مرتبہ سے محروم نہ رکھنا، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اے متلاشیِ خیر! سیرتِ نبیِ مصطفی کی طرف قدم بڑھائیے، ہاں مگر آتے ہوئے اپنی نیت، عمل و تطبیق کی بناتے آئیے، نا کہ محض جان کاری اور علم کی، کیوں کہ جو علم عمل سے عاری ہوتا ہے وہ خیر و برکت سے بھی عاری ہی ہوتا ہے۔